سخن عشق



امام کی تعریف

 

امام کا لغوی معنی کیا ہے؟

 

لغت کے اندر امام پیشوا، مقتدا وغیرہ کے معنی میں ہے۔ امام وہ ہے جسے کسی کام میں آگے کیا جائے اور باقی لوگ اس کی پیروی کریں۔ وہ تیریا نیزہ جسے معیار اور پیمانہ بنا کر باقی تیروں اور نیزوں کو اس کے مطابق بنایا جاتا ہے، اسے امام کہا جاتا ہے۔ بچے کو خوش خطی سکھانے کے لیے تختی پر جو پہلی لائن لکھی جاتی ہے اور باقی لائنوں کو اسی کے مطابق لکھنے کی تلقین کی جاتی ہے، اس پہلی لائن کو امام کہا جاتا ہے۔ قرآن کا وہ اصلی نسخہ جس کو معیار بنا کر باقی مصاحف کی اس کے مطابق اصلاح کی گئی، اسے مصحفِ امام کہا گیا۔

 بعض نے کہا  امام وہ ہے جس کی اقتدا اور پیروی کی جائے، چاہے  وہ انسان ہو، کتاب ہو یا کوئی اور چیز۔ امام وہ ہے جس کی پیروی کی جائے۔ چاہے وہ انسان ہو جس کے قول اور فعل کی پیروی کی جائے، چاہے وہ کتاب ہو یا کچھ اور، چاہے وہ باطل ہو یا حق۔ پس امام کے لغوی معنی کے حوالے سے کوئی خاص اختلاف نہیں ہے۔

قرآن کریم میں لفظ امام اور اس کے مشتقات 12 مرتبہ استعمال ہوئے ہیں، جن میں سوائے ایک مورد کے ہر جگہ لفظِ امام پیشوا اور مقتدا کے معنی میں ہی آیا ہے۔ ایک مورد میں "لوح محفوظ" کو امام کہا گیا ہے۔ اس کی بھی وجہ شاید یہ ہو کہ لوح محفوظ میں مخلوقات کے تمام فیصلے لکھے گئے ہیں، اور مخلوقات اپنے افعال میں اس کی اتباع اور پیروی کرتی ہیں۔

طلحہ بن زید امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں دو قسم کے اماموں کی بات کی گئی ہے۔ (ہدایت کے امام، گمراہی کے امام) اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا) ایک قسم کے امام وہ ہیں جو خدا کے حکم سے لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں، نہ لوگوں کے حکم سے۔ اللہ کے امر کو اپنے امر پر اور اللہ کے حکم کو اپنے حکم پر مقدم رکھتے ہیں۔ جبکہ دوسری قسم کے بارے فرمایا: (وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ) یہ وہ لوگ ہیں جو امام بن کر لوگوں کو جہنم کی آگ کی طرف بلاتے ہیں۔ اپنے امر کو اللہ کے امر پر اور اپنے حکم کو اللہ کے حکم پر مقدم کرتے ہیں۔ جو کچھ اللہ کی کتاب میں ہے ان کے خلاف اپنی خواہشات نفسانی پر عمل کرتے ہیں۔

البتہ اس دوسری قسم میں جو کہا گیا کہ ہم نے ان کو امام بنایا، اس سے مراد یہ نہیں کہ اللہ تعالی نے ان کو اس کام کے لیے نصب کیا ہو کہ وہ لوگوں کو گمراہ کریں اور آگ کی طرف بلائیں۔ بلکہ یہاں "جعل" اذن تکوینی کے معنی میں ہے، یعنی اللہ تعالی نے تشریعی طور پر اس کام سے روکا ہے، لیکن تکوینی طور پر ان کو مجبور نہیں کیا کہ وہ ایسے کاموں سے رک جائیں۔ وہ لوگ اللہ تعالی کی طرف سے حاصل قدرت اور طاقت کو غلط کاموں میں استعمال کرتے ہیں۔

 

پہلی والی آیت (وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا) میں دو نکتے انتہائی قابلِ غور ہیں:

 

۱۔ (جَعَلْنَاهُمْ) یعنی ہم نے ان کو امام بنایا۔ یہاں سے پتہ چلتا ہے ہدایت دینے والے امام کی تعیین اور تنصیب خداوند متعال خود کرتا ہے۔ اس کام کو لوگوں کے اوپر نہیں چھوڑا کہ وہ جمہوریت کے طریقے پر اپنے لیے امام تعیین کریں۔

 

۲۔ ( بِأَمْرِنَا) اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ پہلا معنی یہ کی ہدایت والے امام لوگوں کو امرِ خدا کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ یعنی ان کا ہدف اور مِشن الہی ہوتا ہے جس کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں۔ ان کے اپنے ذاتی اہداف و مقاصد نہیں ہوتے۔ جبکہ دوسرا معنی یہ ہو سکتا ہے کہ یہاں (باء) سببیت کا معنی دے رہا ہے۔ یعنی چونکہ ہم نے اپنے خاص حکم کے ذریعے ان کو امام بنایا ہے لہذا اس وجہ سے وہ لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں۔ پس امام کی طرف سے لوگوں کی ہدایت اپنی طرف سے خودساختہ نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے امامت کا اذن حاصل ہے اس لیے وہ لوگ اس منصب پر فائز ہیں۔ اس سے بھی یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہدایت کے لیے امام کی تعیین اللہ تعالی کے خاص امر پر موقوف ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ لوگ اکھٹے ہو کر خود سے اپنے لیے امام معین کریں، جبکہ اللہ تعالی کی طرف سے اس بندے کے لیے ہدایت یافتہ ہونے کی کوئی سند حاصل نہ ہو۔ اور جو خود ہدایت یافتہ نہ ہو، وہ کیسے لوگوں کی ہدایت کر سکتا ہے؟

(أَفَمَن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لَّا يَهِدِّي إِلَّا أَن يُهْدَىٰ)

تو پھر (بتاو کہ) جو حق کی راہ دکھاتا ہے وہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو خود اپنی راہ نہیں پاتا جب تک اس کی رہنمائی نہ کی جائے؟


آخرین مطالب

آخرین ارسال ها

آخرین جستجو ها

neginyc قصه نویسی ، داستان نویسی ، خاطره نویسی نوروز 1398 پسر تهرونی الف اهم رویدادهای سینمایی استان یا مرتبط با جشنواره الان بخر تحویل بگیر عاشقانه sanobartri تخفیفان تیدا کلیپ بانک لینک های دانلود فیلم ، دانلود سریال و دانلود آهنگ میباشد